مسنون اور آسان شادی کا عملی مظاہرہ

 مسنون اور آسان شادی کا عملی مظاہرہ

دعوے تو سب کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اسے کر دکھانا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے

مسنون اور آسان شادی کا عملی مظاہرہ
مسنون اور آسان  شادی کا عملی مظاہرہ 

محمد امتیاز پلاموی ،مظاہری
دعوے تو سب کرتے ہیں کہ ہم آسان اور مسنون شادی کریں گے، لیکن تمام‌ مشکلات کا سامنا کرکے، رسم و رواج کی پرواہ کیے بغیر ، رشتہ داروں اور اہل خانہ کے طعنے کو برداشت کرتے ہوے، اسے عملی  جامہ پہنانا ہر کسی کے بس میں نہیں۔
ہم جیسے دو کوڑی کے مولوی سے لیکر بڑے جبہ و قبہ اور لمبی دستار والے، اسٹیج پر آسان نکاح کی پکار لگانے والے خطباء سے لیکر جہیز اور رسم و رواج کے خلاف فتویٰ دینے  والے اہل افتاء تک، اپنی زندگی میں عملی نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
لیکن زیر نظر مضمون میں ایک نصیحت آموز آسان اور مسنون شادی کا قصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک ماسٹر صاحب کا ہے۔
اس واقعے میں ہم جیسے چھوٹے مولوی سے لیکر تمام بڑے اہل علم کے لیے عملی نمونہ ہے، اگر ہم عمل کرنا چاہیں تو رسم و رواج اور گھر والوں کے طعنے ہیچ ہیں۔

براہ کرم ایک دفعہ پورا مضمون ضرور پڑھیں۔



آگے کا قصہ غالباً لڑکی کے والد محترم نے خود تحریر کی ہے:

مسنون اور آسان شادی کا عملی مظاہرہ
مسنون اور آسان  شادی کا عملی مظاہرہ

مولانا ولی اللہ مجید قاسمی

    شادی کارڈ پر یہ جملہ لکھا ہوا ضرور ملتا ہے مگر خارج میں عقد مسنون بہت کم نظر آتا ہے ؛ بلکہ یہیں سے عقد غیر مسنون کی ابتدا ہو جاتی ہے اور قیمتی سے قیمتی اور بے مثال اور یادگار شادی کارڈ کا آرڈر دیا جاتا ہے اور فضول خرچی اور نمائش کی مثال قائم کی جاتی ہے۔

صحابۂ کرامؓ کی آسان شادیاں

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی شادی کا واقعہ

     حالانکہ رشتۂ نکاح ایک نہایت پاکیزہ اور بہت ہی سادہ بندھن ہے۔  دیکھئے! یہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہیں ، جوان دس لوگوں میں شامل ہیں، جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی، ابھی جلد ہی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہیں، ایک روز خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، لباس پر عقد زواج کی کچھ علامتیں نظر آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا نکاح کرلیا ہے؟ عرض کیا ہاں،فرمایا: کس سے ؟ عرض کیا ،ایک انصاری خاتون سے، فرمایا :مہر کیا رکھا؟ عرض کیا: گٹھلی کے بقدر سونا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔  بخاری شریف :۲۰۴۸)

حضرت جابر ؓ کی شادی کا واقعہ

     حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک انصاری صحابی ہیں، ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: جابر تم نے نکاح کرلیا؟ عرض کیا :ہاں، فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے ؟ عرض کیا : شوہر دیدہ سے ۔ (بخاری شریف: ۴۰۵۲)

    ان دونوں واقعات میں غور کا مقام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں موجود ہیں، اس کے باوجود صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین  نکاح سے پہلے آپ کو اس کی کوئی اطلاع نہیں دیتے اور نہ آپ کی طرف سے کسی ناگواری یا شکایت کا اظہار ہوتا ہے، کہ تم نے شادی میں مجھے کیوں نہیں پوچھا؟ اور میری دعوت کیوں نہیں کی؟

با برکت نکاح کیا ہے؟

    یہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا نتیجہ تھا ، اور آپؐ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ نکاح کو آسان سے آسان تر بنایا جائے، نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو ( مسند احمد:٢٤٥٣٩)

مسلمانوں کی شادی کا برا حال

    لیکن آج مسلمانوں کی حالت اس کے بالکل الٹ ہے، وہ غیر اسلامی رسم و رواج کے مضبوط بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں، اس معاملے میں دانا اور نادان، عالم اور عامی سب یکساں ہیں ، کراہنے اور سسکنے کے باوجود سب اس بندھن سے بندھے رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش بوجھ بن گئی ہے اور پیدا ہوتے ہی اس کے جہیز کی فکر پریشان کرنے لگتی ہے اور ایک بڑی تعداد اس کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو اپنی مجبوری سمجھتی ہے، دوسری طرف جہیز لینے والوں کا حال یہ ہے کہ پورا گھر اٹھا کر دے دینے پر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا اور اصلاح معاشرہ کے نام پر ہونے والی تقریریں چکنے اور اوندھے گھڑے پر پانی ڈالنے کی طرح ثابت ہو رہی ہیں ؛ لیکن اس اندھے اور بہرے معاشرے میں کچھ دانا اور بینا بھی ہیں اور اس اندھیر نگری میں کبھی کبھار روشنی کی کرن نمودار ہوجاتی ہے اور اکّا دُکّا ایسے واقعات بھی سننے میں آ جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔

آسان شادی کا عملی و مثالی نمونہ

    تقریبا سال بھر پہلے ڈاکٹر فیض احمد اعظمی کے بیٹے حافظ محمد حمزہ ندوی سے میری بیٹی کا رشتہ طے ہوا تھا ، جن کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا کہ وہ جہیز کے سخت مخالف ہیں اور ان کے بڑے بیٹے کا نکاح شادی کے تین نقطوں کے بغیر ہوا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر کے عہدے سے ابھی جلد ہی ریٹائر ہوئے ہیں ، تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں ؛ لیکن جہیز سے احتراز کرنے کا داعیہ ڈاکٹر اسرار احمد کی تقریروں کو سن کر پیدا ہوا ۔ انہوں نے رشتہ طے کرنے سے پہلے ہی کہہ دیا کہ نہ توجہیز لونگا اور نہ کسی بھی طرح کا رسم و رواج ہوگا، صرف دو چار لوگ آئیں گے، سادگی کے ساتھ مسجد میں نکاح ہوگا اور اس کے بعد رخصتی ہو جائے گی۔

    شادی کی تاریخ جیسے جیسے قریب آ رہی تھی رسم و رواج کی بندشوں کی وجہ سے بعض الجھنے بھی پیش آ رہی تھیں، ڈاکٹر صاحب سے اس کے بارے میں دریافت کرتا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ کچھ نہیں چاہئے ، بالکل آخرآخر میں پوچھا : کہ شراکت کا کپڑا جائے گا؟ جواب ملا یہ کون سی مصیبت ہے؟  میں نے کہا : آپ کے بھائی بہن، والدہ، بیٹے بیٹی وغیرہ کے لئے کپڑا؟ کہا : بالکل نہیں، میں نے کہا :عورتیں اعتراض کریں گی، کہا: کریں گی تو میں انہیں اپنی طرف سے کپڑا دے دوں گا۔ میں نے پوچھا نوشا کیلئے بطور تحفہ ایک دو جوڑے کپڑے دے دئے جائیں تو کیا حرج ہے ؟ جواب ملا ہرگز نہیں۔

    طے شدہ پروگرام کے مطابق 29 نومبر 2019 کو ڈاکٹر صاحب اپنے وطن اصلی چریاکوٹ سے چند لوگوں کے ہمراہ عصر کے بعد ، گھوسی (ضلع مؤ یوپی) پہنچے قریب کی مسجد میں نکاح ہوا اور ان کی خواہش پر مہر فاطمی ایک کلو 750 گرام چاندی کو مہر مقرر کیا گیا، جسے سونے کے دو کنگن کی شکل میں ادا کر دیا گیا اور مغرب بعد رخصتی ہوگئی۔ 

     نہ جوڑا نہ گھوڑا، نہ جہیز نہ بارات، نہ کوئی تام جھام، نہ رسم و رواج، نہ گمچھا رومال، نہ گھڑی انگوٹھی، نہ منہ دکھائی نہ سلام کرائی،نہ رخصتی کی مٹھائی ، نہ چینی نہ لائی، بلکہ آخرتک یہی کوشش رہی کہ یہ شادی عقد مسنون کے دائرے ہی میں رہے اور دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے شادی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

 اللہ کرے کہ یہ جوڑا ایک مثالی جوڑا ثابت ہو آمین یا رب العالمین۔



Post a Comment

0 Comments