Header Ads Widget

نکاح میں مہر کی شرعی حیثیت /مسائل مہر اور موجودہ اوزان کے اعتبار سے مہر کا حساب

 نکاح میں مہر کی شرعی حیثیت

مسائل مہر اور موجودہ اوزان کے اعتبار سے مہر کا حساب

نکاح میں مہر کی شرعی حیثیت /مسائل مہر اور موجودہ اوزان کے اعتبار سے مہر کا حساب 



    آج کے اس دور پر فتن ، نفس پرستی اور خود غرضی کے عالم میں، ہر شخص محض اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے حقوق ہڑپ کر جانے کو فخریہ انداز میں بیان کرتا پھرتا ہے ، ہر شخص کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اپنا حق جس طرح بھی حاصل ہوسکے حاصل کر لیا جائے ، چاہے اس کے لئے اپنی گردن کی ہی قربانی کیوں نہ کرنی پڑے ،یہ تو خیر شریعت کی رو سے درست بلکہ مقتول شہید کے درجہ میں شمار کیا جائے گا ، کیوں کہ حدیث پاک میں ہے جو شخص اپنا حاصل کرنے کے لیے قتال کرے اور قتل کردیا جائے تو وہ شہید ہے؛ لیکن افسوس بلکہ صد افسوس تو یہ ہے کہ کچھ بے غیرت لوگ دوسروں کے حقوق  ہڑپ کر جانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور ہڑپ کر جانے پر ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ دوسروں کے حقوق ہڑپ جانے پر کیا نقصانات مرتب ہوں گے ، کتنی ذلتیں برداشت کرنی پڑیں گی اور خدا کے روبرو پیش ہونے پر اس کا کیا انجام ہوگا؟

مہر معاف کرانا کیسا ہے؟

    من جملہ حقوق تلفی کے ایک مہر کی حق تلفی ہے۔ مہر عورت کا ایک واجبی حق ہے ؛ جو کہ عورت سے فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے مرد کے ذمہ لازم ہوتا ہے ۔ لیکن آج کل لوگ اسے غیر اہم سمجھتے ہوئے عورتوں کو اس کے حق سے محروم کر رہے ہیں ۔ تعیین مہر عند النکاح  فقط رسم بن چک ہے ، اسی وجہ سے آج کل تقریباً 70 فیصد لوگ عورتوں کو مہر دیتے ہی نہیں اور اسی حال میں انتقال کرجاتے ہیں ، خوب سے خوب اتنا کر تے ہیں کہ بیوی سے معاف کروا لیتے ہیں ، ان میں بھی بعض جبرا معاف کراتے ہیں اور عورتیں طلاق کے خوف سے مہر معاف کردیتے ہیں ، بہت کم مرد ایسے ہوتے ہیں جو بلا جبر معافی کی درخواست کرتے ہیں اور بیوی معاف کر دیتی ہے ، اور بہت کم عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو بغیر مطالبہ کے اپنی مرضی سے معاف کر دیتی ہوں ، اور عورت حق مہر کیوں معاف کرے؟ جبکہ شریعت نے اسے ہر حال میں عورت کے لیے متعین کیا ہے۔ اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نکاح کے وقت مہر تو بڑھا چڑھا کر متعین کر تے ہیں لیکن روز اول سے ہی ان کے شریر دل میں مہر ادا نہ کرنے کے خبیث ارادے بھرے ہوتے ہیں ، اور بعض تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ جتنا چاہو باندھ لو مہر تو دینا ہی نہیں ہے ( نعوذ باللہ )

مہر کی شرعی حیثیت 

     میرے پیارے مسلم بھائیوں! یہ بات اچھی طرح جان لو کہ جس مذہب کو ہم اور آپ مانتے ہیں اس مذہب کا حکم ہے :  وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً :  (یعنی ائے لوگو عورتوں کو ان کا مہر خوشی سے ادا کردیا کرو  سورۃ النساء ۴) مہر اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے متعین کردہ عورت کا حق ہے جس کا ادا کرنا ناکح مرد یعنی شوہر پر لازم ہے ، اگر کسی وجہ سے مرد مہر ادا نہیں کر سکا اور مر گیا اور بیوی نے معاف نہیں کیا ہے تو مرحوم کے مال میں سے سب سے پہلے مہر ادا کیا جائے گا؛ اس لیے کہ مہر ایک قرض ہے اور قرض کی ادائیگی سب سے پہلے ضروری ہے اس کے بعد میراث تقسیم کی جائے گی ، اسی طرح اگر وصول مہر سے قبل عورت فوت کر گئی تو بھی مرد کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم ہے اور عورت کی وراثت میں مہر کا مال تقسیم کیا جائے گا۔ 

مہر کتنا متعین کرنا چاہیے؟

    شریعت نے مہر کی ادائیگی میں مالی حیثیت کا اعتبار کیا ہے اور اس میں لوگوں کی رعایت بھی رکھی ہے ؛ نیز افراط و تفریط کو ناپسند بھی کیا ہے، چنانچہ غرباء کے لیے اقل مہر یعنی سب سے کم مہر دس درہم اور صاحب حیثیت کے لیے مہر فاطمی یعنی پانچ سو درہم، مالداروں کے لئے مہر ام حبیبہ یعنی  چار ہزار درہم ؛ جب کہ امراء و سلاطین کے لیے مہر ام کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہن یعنی چالیس ہزار درہم‌کا ثبوت کتب حدیث میں ملتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے بقدر مہر متعین کرے تاکہ ادائیگی میں دشواری نہ ہو ۔

مہر کی قسمیں

 مہر کی دو قسمیں ہیں: (١) مہرمعجل یعنی نقد مہر (٢) مہر مؤجل یعنی ادھار مہر۔

مہر معجل 

    کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کرنے کی شرط ہو ، اس کا حکم یہ ہے کہ ہم بستری سے پہلے مہر کی ادائیگی ضروری ہے ، عورت کو حق ہے کہ ادائیگی مہر سے قبل شوہر کو ہمبستر نہ ہونے دے ۔

 مہر مؤجل

     کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں مہر کی ادائیگی کی شرط ہو ، خواہ بعد کے لیے کوئی وقت متعین ہو یا نہ ہو ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ شوہر جب چاہے ادا کرے عورت کو فورا مطالبہ کا حق نہیں ہے۔ لیکن خیال رہے کہ مہر معجل ہی افضل ہے کہ یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ماثور و منقول ہے۔ نیز عورت کا اس میں فائیدہ ہے اور مرد کے لئے قرض سے جلد رہائی کا ذریعہ ہے ۔

مسئلہ : اقل مہر دس درہم ہے، یعنی دس درہم سے کم مہر متعین نہیں ہوسکتا، حتی کہ اگر کسی نے دس درہم سے کم متعین بھی کرلیا تب بھی دس درہم ہی لازم ہوں گے۔

موجودہ اوزان کے حساب سے مہر کی تعیین 

      اقل مہر دس درہم کی مقدار تین تولہ ہے، اور تین تولہ موجودہ رائج ہندی گرام کے اعتبار سے تیس گرام 618 ملی گرام چاندی ہے ۔ 

مہر فاطمی کی مقداراور اس کا وزن

     مہرفاطمی کی مقدار حضور ﷺ کے مبارک زمانہ کے رئج  درہم کے اعتبار سے ۵۰۰ درہم ہے، اور تولہ کے اعتبار سے 131 تولہ تین ماشہ چاندی ہے جبکہ موجودہ ہندی رائج اوزان کے اعتبار سے اس کی مقدار پندرہ سو تیس (۱۵۳۰) گرام یعنی ڈیڑھ  کیلو 30 گرام نو سو (۹۰۰) ملی گرام چاندی ہے۔ 

    اتنی چاندی کی قیمت صراف سے معلوم کر لی جائے کیونکہ قیمت روز بروز بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے۔

 اگر کوئی شخص مہر میں درہم کے بجائے دینار متعین کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اقل مہر ایک دینار ہے ، ایک دینار کی مقدار چار (۴) گرام ۳۷۴ ملی گرام سونا ہے۔

 نوٹ :  یہ تمام اوزان حضرت اقدس مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب فتاوی قاسمیہ جلد نمبر 13 اور ایضاح المسائل کا خلاصہ ہے۔

 اللہ تبارک و تعالی ہم تمام مسلمانوں کو حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


Post a Comment

0 Comments