رمضان المبارک کس طرح گزاریں ؟ (قسط ۱) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 رمضان المبارک کس طرح گزاریں ؟ (قسط ۱)

فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب

رمضان المبارک کس طرح گزاریں ؟ (قسط ۱)
 رمضان المبارک کس طرح گزاریں ؟ (قسط ۱)

   پیشکش:  محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری   

رمضان المبارک کی اہمیت 

   رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے، جس میں خدا پاک کی رحمتیں اس کے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، جو وقت جتنا قیمتی ہوتا ہے اور جو چیز جتنی گراں قدر ہوتی ہے اسی قدر اس کی حفاظت اور اس کے حقوق کی رعایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریت کے ڈھیلے سرِ راہ رکھ دیے جاتے ہیں اور سونے کا ایک ٹکڑا بھی محفوظ مکان اور محفوظ جگہ میں رکھا جاتا ہے ۔ تو آئیے اس ماہ مبارک کے لیے ایک نظام العمل بنائیے اور اس نظام کے مطابق اپنا وقت گذارئیے! وہ نظام وقت کی حفاظت کرے گا ، نیکیوں کی توفیق میں معاون ہوگا اور اس مہینہ کی سعادتوں اور برکتوں سے دامن مراد بھرنے کے لیے وسیلہ بنے گا۔

    رمضان المبارک کا سب سے اہم عمل روزہ ہے

      روزہ کیا ہے؟

 خدا سے محبت اور اس کی خوشنودی کے لیے  سب کچھ قربان کردینے کی تربیت، اس بات کا اظہار کہ وہ رب کی چاہت کے آگے سب کچھ قربان کردے گا، وہ آخرت کی نعمتوں سے دامن طلب کو سرفراز کرنے کے لیے اپنے آپ کو دنیا کی شہوات و خواہشات سے بے نیاز کر لے گا، وہ اپنے نفس کے سرکش اور تیزگام گھوڑے کو اپنے قابو میں رکھے گا، 

کیوں کہ دنیا کی تمام لذتیں معدہ اور نفسانی جذبات کے گرد گھومتی ہیں، روزہ ان دونوں پر کنٹرول کرتا ہے، اور اس کنٹرول کے پیچھے کوئی ظاہری اور مادی طاقت نہیں ہے، صرف خدا کا خوف اور آخرت میں جواب دہی کا احساس ہے ، جو روزہ دار کو کھانے پینے سے روکے ہوا ہے؛اسی لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم بقدر امکان روزہ توڑنے سے بچیں،

روزہ کس پر فرض ہے اور کس پر نہیں؟

    ہر عاقل ، بالغ مسلمان مردو عورت پر روزہ رکھنا فرض ہے، اس سے صرف حیض و نفاس والی دو چار عورتیں ، مسافر، بہت بوڑھے اور مریض جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے مستثنیٰ ہیں۔ 

روزہ نہ رکھنے کا وبال

    اگر ان اعذار کے نہ ہونے کے باوجود کوئی شخص روزہ توڑے تو سخت گنہگار ہے اور اتنا بڑا مجرم ہے کہ ارشاد نبوی کے مطابق اگر رمضان المبارک کے ایک روزہ کے بدلہ سال بھر بھی روزہ رکھتا ہے تو اس ایک روزہ کے توڑنے کی تلافی نہ ہوسکے، اس لیے کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ توڑنے سے پوری طرح پرہیز کیجئیے۔

نماز تراویح

    رمضان المبارک کا دوسرا عمل نماز تراویح کا اہتمام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے چند دنوں یہ نماز مسجد نبوی میں ادا فرمائی ہے، پھر اس اندیشہ سے آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں نماز پڑھنا چھوڑدیا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہوجائے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ امت کے لیے باعث مشقت ہوگا۔

نماز تراویح کی رکعت ۸ یا ۲۰

 امام ابو حنیفہؒ ، امام مالک، امام شافعیؒ اور اما احمد ابن حمبل ؒ اس بات پر متفق ہیں کہ تراویح کی نماز بیس رکعت ہے، نیز حضرت عمر فاروق ؓ کے دور سے  لے کر آج تک حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح کا معمول رہا ہے۔ اس لیے مسنون یہی ہے کہ بیس رکعت تراویح ادا کی جائے، بعض اہل علم آٹھ رکعت تراویح ککے قائل ہیں ، اس اختلاف رائے کو باہمی نزاع اور جھگڑے کا سبب نہ بنانا چاہیے؛ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ آٹھ رکعت پڑھنے والے ہوں ، اگر امام بیس رکعت پڑھائے تو وہ آٹھ رکعتوں کے بعد الگ ہوجائیں اور اگر امام آٹھ رکعت پڑھتا ہو تو جو لوگ بیس رکعت پڑھنے والے ہیں وہ امام کے پیچھے پڑھ کر باقی رکعت الگ پڑھ لیں، لیکن اس مسئلہ کو امت کے درمیان نزاع کا ذریعہ نہ بنائیں۔

    ترویح میں ختم قرآن

     ہاں! تراویح پڑھنے کا ضرور اہتمام کریں ؛ کیوں کہ اس ماہ میں رسول اللہ ﷺ کی عبادت کی مقدار بڑھ جایا کرتی تھی اور نماز تراویح کے ذریعہ یہ سنت پوری ہوتی ہے۔ بعض حضرات تراویح میں قرآن مکمل ہونے کے بعد نماز تراویح کا اہتمام ہی ختم کردیتے ہیں، یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور قرآن مجید کا مکمل کرنا مستحب، نماز مستقل عمل ہے اور نماز میں قرآن مجید کی تکمیل ایک الگ عمل ہے۔

  محترم قارئین!  

مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔

   شکریہ  


 وضاحت  برائے رابطہ : 
ہر طرح کے علمی،فکری و اصلاحی مضامین پڑھنے کے لیے، ہر طرح کے اسلامی و سیاسی خبروں سے واقفیت کے لیے 
درج ذیل لنکس پر کلک کریں، یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں۔ شکریہ
محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری
7079256979| 6397254972
Haq baat Kaho youtube
Mufti Imtiyaz Palamvi youtube
Haq Baat Kaho fb page
Haq Baat Kaho Telegram
Mohammad Imtiyaz Palamvi  Twitter


  مضمون پسند آئے تو واٹس ایپ،فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کریں۔ شکریہ  

Post a Comment

0 Comments