رمضان المبارک میں ختم سحری کے کتنے منٹ بعد اذان فجر پڑھی جائے؟ دارالعلوم دیوبند

 رمضان المبارک میں ختم سحری کے کتنے منٹ بعد اذان فجر پڑھی جائے؟ 

فتاویٰ دارالعوم دیوبند کی روشنی

رمضان المبارک میں ختم سحری کے کتنے منٹ بعد اذان فجر پڑھی جائے؟


       پیشکش:  محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری   

   آج کل سحری کھانے والے عام طور سے بد احتیاطی کرتے ہیں، وقت کا خیال نہیں رکھتے، جنتریوں اور کیلنڈروں میں ختم سحری کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اسی پر کامل یقین کرکے آخری وقت تک کھاتے پیتے رہتے ہیں، تمباکو، پان اور کھینی کھانے والے لوگ تو عام طور سے اس لاپرواہی میں مبتلاء ہیں، ان کا خیال ہوتا ہے کہ ابھی تو ختم سحری میں پانچ منٹ باقی ہے چلو کھینی کھالیتے ہیں اور جیسے ہی مسجد سے ختم سحری کا اعلان ہوتا ہے لوگ کھینی ، پان تھوک کر کلی کرتے ہیں اور اکثر پانی بھی پیتے ہیں، بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ جب تک اذانِ فجر نہ ہوجائے تب تک کھاتے رہو، اس صورت میں تو روزہ ہی نہیں ہوگا۔ 
    اسی طرح عام طور سے دیہات کے علاقوں میں جنتریوں اور کیلنڈروں میں درج ختم سحری کے وقت سے دو چار منٹ کے بعد فوراً اذان شروع ہوجاتی ہے جو کہ خلاف احتیاط ہے، اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے شائع ہونے والا ایک فتویٰ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، اس سے ختم سحری کے اوقات اور ختم سحری کے کتنے منٹ بعد اذان کہی جائے اس کی مکمل تفصیل واضح ہوجائے گی۔ انشاء اللہ

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسائل درج ذیج کے بارے میں:

(۱) سہارنپور اور اطراف و جوانب میں اوقات نماز کے لیے رحیمی دوامی جنتری رائج ہے، اس کے پہلے صفحہ پر ہدایت درج ہے : کہ اس جنتری کے اوقات سے احتیاطاً کم از کم پانچ منت بعد اذان کہی جائے، اس کحتیاط کا کیا حکم ہے؟ اور اس احتیاط پر عمل کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ 

(۲) دیکھا یہ گیا ہے کہ رمضان المبارک میں اکثر مساجد میں اذان فجر جنتری میں درج بالکل ابتدائی وقت میں ہوتی ہے اور اذان مکمل ہوتے ہی نمازی حضرات فجر کی سنتوں کی نیت باندھ لیتے ہیں، جبکہ ابھی احتیاط کے بمشکل دو منٹ گذرے ہوتے ہیں، اس صورت میں ایسی اذان اور سنتوں کے بارے میں ےکیا حکم ہے؟ 

(۳) اگر پانچ منٹ کے بجائے تین منٹ کی احتیاط کی جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟


    جواب نمبر 66376

    بسم اللہ الرحمن الرحیم 

    رحیمی دوامی جنتری کے حساب سے اذان فجر میں پانچ منٹ کی احتیاط نا کافی ہے ؛بلکہ کم از کم دس منٹ کے احتیاط چاہیے اور یہ احتیاط لازم ہے، محض مستحب نہیں ہے؛ چونکہ جدید فلکی حسابات کی روشنی میں جو جنتریاں تیار کی گئی ہیں : جیسے جناب عبدالحفیط منیار صاحب سورت کی برائے دیوبند تیار کردہ جنتری اور جناب انس صاحب کی دائمی اوقات الصلوٰہ کی روشنی میں دیوبند کے لیے تیار کردہ جنتری ، ان کا جب قاسمی دوامی جنتری جو (رحیمی دوامی جنتری اور دوامی اشرف التقویم ، اوقات نماز وغیرہ کے تقریباً مکمل طور پر موافق ہے) سے موازنہ کیا گیا تو اکثر تاریخوں میں پانچ سے زائد منٹ کا فرق ظاہر ہوا، یعنی جدید جنتریوں میں صبح صادق کا وقت قدیم جنتریوں سے پانچ سات منٹ کے بعد ہے، بالخصوص مئی کے اواخر ، جون اور جولائی میں بلکہ جناب عبدالحفیظ منیار صاحب سورت کی جنتری کے حساب سے بعض تاریخوں میں آٹھ اور بعض میں نو منٹ کا فرق نکلاٹ جبکہ یہ ساری جنتریاں ۱۸؍ڈگری صبح صادق کے حساب پر تیار کی گئی ہیں؛ اس لیے جدید جنتریوں کی رعایت میں اذان فجر میں کم از کم پانچ کنٹ کی احتیاط ناکافی ہے، کم کز کم دس منٹ کی احتیاط لازم ہے۔ 

    بلکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے تو اپنے زمانہ میں جبکہ یہ جدید جنتریاں نہیں آئی تھیں اذان فجر میں کم از کم دس منٹ کی احتیاط لازم قرار دی ہیں؛ چنانچہ حضرت والا رحمہ اللہ دوامی اشرف التقویم اوقات نما کے شروع میں تحریر فرماتےہیں: نقشہ ہذا میں صبح صادق کا جو وقت درج ہے وہ اصولِ علم ِ ہیئت جدید اور مشاہدہ سے بالکل ابتداء صبح ہے؛ مگر احتیاطاً یہ لازمی ہے کہ صبح کی اذان اس سے کم از کم دس منٹ بعد کہی جائے، سحری بیس منٹ پہلے ختم کردی جائے؛ اس میں بد احتیاطی سے کام نہ لیا جائے۔

    اسی طرح ختم سحری میں بھی کم از کم ۸؍ ۱۰؍ منٹ کی احتیاط کی جائے۔ حضرت مولانا تھانویؒ نے تو کم از کم ۲۰؍ منٹ کی احتیاط بتائی ہے ؛ جیسا کہ اوپر گذرا ؛ لیکن چونکہ اس میں عوام کے لیے حرج ہے اور ۱۸؍ ڈگری کے حساب پر تیار کردہ کسی جدید جنتری میں ان قدیم جنتریوں سے پہلے وقتِ سحر ختم نہیں ہوتا؛ البتہ بعض قدیم جنتریوں میں کچھ منٹ کا فرق ہے اور گھڑی کا مکمل طور پر صحیح ہونا بھی ضروری نہیں ہے، اس لئے دس منٹ بہرحال احتیاط چاہیے ، اس سے زیادہ احتیاط نہ کرنے میں کچھ حرج نہیں ؛ کیونکہ حضرت مولانا تھانویؒ نے ایک جگہ صرف دس پندرہ منٹ کی احتیاط تحریر فرمائی ہے؛ چنانچہ  حضرت والا بوادرالنوادر ( ص۴۲۹) میں نقشہ السلاعات للطاعات کے بعد تنبیہات متعلقہ اوقات نماز و روزہ کے عنوان کے تحت تنبیہ نمبر 9 کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں : 

اگر سب میں مناسب احتیاط کر لی جائے تو عملی غلطی سے حفاظت رہے گی، مثلا صبح صادق کا جو وقت نقشہ میں ہے اس سے دس پندرہ منٹ پہلے سحری چھوڑ دیں اور ختم سحر اور اذان فجر میں یہ احتیاط اس لیے بھی اہم اور ضروری ہے کہ حسابی نقطہ نظر سے تیار کی جانے والی جنتریاں محض ظنیّ  و تخمینی ہوتی ہیں  قطعی  و یقینی نہیں ہوتیں، اور روزہ نماز اور اذان سب میں احتیاط ضروری ہے،  احتیاط بالاء طاق رکھ کر ماہ رمضان کے روزے مشکوک کرنا یا اذان اور نماز مشکوک کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں : میں قدیم جنتری کے اوقات کو حسابی اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں ، البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے، نماز روزہ کے معاملے میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے (احسن الفتاویٰ ج۲؍ ص۱۹۱) مطبوعہ : ایچ ایم سعید کراچی

    فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ صحیح قول کے مطابق شک و تردد کے ساتھ سحری میں تاخیر کرنا مکروہ ہے : و محل الاستحباب اذا لم يشك في بقاء الليل،فان شك كره الاكل في الصحيح كما في البدائع ايضا ( رد المحتار ، كتاب الصوم ۳؍۴۰۰ ، مطبوعه : مكتبه زكريا ديوبند) و يكره تاخيره الي وقت يقع فيه الشك، هنديه ( حاشية الطحطاوي علي المراقيص ۶۸۳ مطبوعه:  مكتبه دارالكتب العلميه ، بيروت) ۔ 

    فتاوی رشيديه (ص ۴۶۲؍ مطبوعه : گلستاں كتاب گهر ديوبند) ميں ہے: سحری کھانے کے اندر تاخیر مستحب ہے اور ایسی تاخیر کہ جس سے شک واقع ہوجائے اس سے بچنا واجب ہے۔

     فتاویٰ محمودیہ (۵؍ص ۳۶۲) سوال: ۲۱۵۷: مطبوعہ : ادارہ صدیق ڈابھیل) میں مختلف اوقات کی جنتریوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ہے اگر سحری صبح کے وقتِ مشتہر سے قبل ختم کردی جائے اور نماز فجر اسفار میں ادا کی جائے جوکہ اصل مذہب ہے تو کوئی خدشہ نہ رہے ، یا اسفار میں نہ ہو تو کم از کم اتنا تو لحاظ کرلیا جائے کہ یہ خدشہ دفع ہوکر نماز بالتعیین صحیح وقت پر ادا ہو؛ اسی لیے گذشتہ سال شعبان ۱۴۳۶ھ میں حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرابادی دامت برکاتہم (مفتی دارالعلوم دیوبند) نے دارالافتاء کے دیگر مفتیان کرام سے مشورہ کے بعد حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی خدمت میں یہ تحریر فرمایا : دارالعلوم کی طرف سے شائع ہونے والے نقشہ اوقاتِ سحرو افطار میں وقت اذانِ فجر کا ایک خانہ بڑھادیا جائے اور منتہاء سحر سے دس منٹ بعد اذانِ فجر کا وقت درج کردیا جائے، اور نوٹ میں یہ لکھ دیا جائے کہ اذان فجر کا وقت احتیاطاً ختم سحری کے ۱۰؍ منٹ بعد درج کیا گیا ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں احتیاط بھی ہے اور دیگر جنتریوں کے حساب سے بھی ہر موسم و تاریخ میں فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے ؛ چنانچہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے دارالافتاء کی تجویز قبول فرماتے ہوئے متعلقہ شعبہ کو اس کا حکم صادر فرمایا اور گذشتہ سال اور امسال بھی دارالعلوم کے نقشہ اوتِ سحرو افطار میں اذانِ فجر کا خانہ بڑھادیا گیا اور یہ نوٹ بھی تحریر کیا گیا۔  اذانِ فجر کا وقت احتیاطاً ختم سحری کے ۱۰؍ منٹ بعد درج کیا گیا ہے اور جب مظاہر علوم سہارنپور کے مفتیان کرام اور ذمہ دار حضرات کو اس کا علم ہوا تو ان حضرات نے بھی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے اسے قبول فرمایا اور ان حضرات نے بھی اپنے یہاں سے شائع ہونے والے نقشہ اوقات سحرو افطار میں اذانِ فجر کے خانہ کا اضافہ فرمایا اور اس میں منتہاء سحر سے ۱۰؍ منٹ کے بعد اذانِ فجر کا وقت درج فرمایا۔

    نمبر۲: آپ کے یہاں بعض یا اکثر مساجد میں اگر رحیمی دوامی جنتری کے حساب سے وقت سحر ختم ہونے ہی اذانِ فجر کہہ دی جاتی ہے اور اذانِ کے فوراً بعد لوگ سنتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ طریقہ صحیح نہیں ، قابل اصلاح ہے، اس صورت میں اذان اور سنتیں دونوں مشکوک ہوتی ہیں؛ اس لیے ختم سحر سے کم از کم ۱۰؍ منٹ بعد ہی اذان کہی جائے اور اس کے ۵ یا ۱۰منٹ بعد نماز فجر شروع کی جائے، تاکہ اذان اور نماز دونوں یقینی طور پر فجر کا وقت شروع ہوجانے کے بعد ہوں؛ نیز بعض حضرات فجر کا وقت تبیین صبح صادق پر مانتے ہیں اس لیے بھی ختم سحری سے کم از کم ۱۰؍ منٹ کے بعد ہی اذان کہی جائے۔

    نمبر۳: اذانِ فجر میں ختم سحر سے کم از کم ۱۰؍ منٹ احتیاط کی جائے ، اس سے کم احتیاط ناکافی ہے ؛ جیشا کہ اوپر نمبر ۱ ؍ میں تصیل سے ذکر کیا گیا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

    دارالافتاء دارالعلوم دیوبند


  محترم قارئین!  

مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔

   شکریہ  

Tag: #ramazan #sehri_ka_last_time #sehri_k_baad_azan_fajr_time #darululuoomdeoband

 وضاحت  برائے رابطہ : 
ہر طرح کے علمی،فکری و اصلاحی مضامین پڑھنے کے لیے، ہر طرح کے اسلامی و سیاسی خبروں سے واقفیت کے لیے 
درج ذیل لنکس پر کلک کریں، یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں۔ شکریہ
محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری
7079256979| 6397254972
Haq baat Kaho youtube
Mufti Imtiyaz Palamvi youtube
Haq Baat Kaho fb page
Haq Baat Kaho Telegram
Mohammad Imtiyaz Palamvi  Twitter


  مضمون پسند آئے تو واٹس ایپ،فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کریں۔ شکریہ  

Post a Comment

0 Comments