کیا مدارس میں بزدل قوم تیار کی جاتی ہے؟
امتیاز فرقانی کا اعتراض
امتیاز پَلاموی کا جواب
|
کیا مدارس میں بزدل قوم تیار کی جاتی ہے؟ ؍ مدارس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟ |
مدارس پر اعتراض!
ایک اخبار کی کٹنگ میری نظر سے گزری، جس میں امتیاز فرقانی نامی ایک صاحب نے اہل مدارس پر بزدلی کا الزام لگاتے ہوئے یہ شرمناک باتیں کہی ہیں:
مدارس میں بہادر نہیں بلکہ ایک بزدل قوم تیار کی جاتی ہے ، طلباء مدارس بے عقل ہوتے ہیں، اہل مدارس اپاہج کرکے انہیں غلام بنا لیتے ہیں، دوران تعلیم صرف تعلیم پر دھیان دینا بدعقلی ہے، بہت سے طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے قائدین کی صفات موجود ہوتی ہیں؛ مگر اہل مدارس انہیں برباد کر دیتے ہیں۔
اسی طرح ایک اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ :
جن طلباء جامعات (یونیورسیٹی کے طلباء) پر آپ بے دینی کے فتوے لگایا کرتے تھے آج وہ آپ کی عزت و آبرو اور اسلام کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی قیادت یونیورسٹیوں کے طلباء ہی کریں گے اور وہ اس لائق ہیں بھی، اور ہم ( اہل مدارس)اس لائق نہیں ؛ اسی لئے اللہ تعالی نے ہم لوگوں کو اس نازک وقت میں بھی اسلام کے لیے قبول نہیں کیا ۔
مجھے بھی پڑھ لیجیے: مسلم نوجوانوں کے نام اہم پیغام!
اخبار کی کٹنگ پڑھ کر بہت افسوس ہوا! خیال ہوا کہ مدارس کا دفاع کرنا ضروری ہے ؛ اگرچہ بہت سے اہل قلم نے اس کا دفاع کیا ہوگا؛ لیکن اس میں میرا بھی حصہ ہو جائے ، چنانچہ چند سطور ملاحظہ فرمائیں:
مدارس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟
سب سے پہلے یہ بات قابل غور ہے کہ برصغیر میں دارالعلوم دیوبند سمیت دیگر تمام مدارس کی بنیاد کا اصل مقصد کیا ہے؟ سیاسی رہنما تیار کرنا، جو قوم کو محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسا جری اور کامیاب حکمران بنائے؟ یا مدارس کا اصل مقصد ہے مذہبی راہنما تیار کرنا،جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسا مجدد الملت، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسا مفسر قرآن اور علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ جیسا محدث اعظم بنے؟
یا مدارس کا مقصد ہے، ایسے افراد تیار کرنا جو شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی، مفتی کفایت اللہ دہلوی علامہ عبید اللہ سندھی اور مولانا حسین احمد مدنی (رحمہم ا اللہ تعالی) جیسے مایہ ناز مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ سیاسی رہنما بنیں؟
مدارس کے اصل مقاصد یہ ہیں!
برصغیر میں موجود مدارس کے عناوین ، قوانین و ضوابط اور مقاصدِ قیام کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ مدارس کا اصل مقصد :
نونہالان اسلام کا باطن نور ایمانی سے منور کرنا اور ایسے مذہبی افراد تیار کرنا ہے جو کفر و ضلالت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو نور و نکہت کی راہ دکھائیں، مذہب کے نام پر کئے جانے والے غیر اسلامی رسوم کو مٹا کر امت کو احکام شریعت سے روشناس کرائیں، دشمنانِ اسلام اگر اپنی تحریروں ، تقریروں اور زور بازو سے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں تو ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیں۔
اہل مدارس نے کافی حد تک اس مقصد میں کامیابی حاصل کی ہے ، چنانچہ باہر ملک سے آئے ہوئے انگریزوں نے ہمارے پیارے ملک ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد جو مشن بنایا تھا:
کہ برصغیر سے اسلام کا نام و نشان مٹا دینگے اور امت مسلمہ کے نونہالان کو ایسا فرد بنائیں گے جو بظاہر ہندوستانی جبکہ باطنی طور پرعیسائی ہوں گے ۔
تب اہل مدارس نے ان کا تعاقب کیا اور یہ کہتے ہوئے پورے ملک میں مدارس کا جال بچھا دیا کہ:
ہمارا مقصد ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جو ظاہر میں ہندوستانی ہوں گے اور باطن سے اسلامی ہوں گے۔
مدارس اسلامیہ کے عظیم کارنامے
چنانچہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک چلائی کہ ہر مسجد میں مکتب قائم کیا جائے آئے، اور الحمدللہ آج تقریباً ہندوستان کی تمام ہی مساجد میں مکتب قائم ہے۔ جب آریا سماج کے گرو پنڈت دیانند سرسوتی نے اسلام کے خلاف چیلنج دیا، تو مدرسے کے ایک بہادر حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اس کی بولتی بند کی۔ جب عیسائی پادریوں نے مناظرہ کر کے اسلام کو مٹانا چاہا تب مدرسے کے ہی ایک بہادرحضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست فاش دیکراسلام کا پرچم بلند کیا۔ جب قادیانیوں نے ختم نبوت پر حملہ کیا تو بہاولپور کے کورٹ میں مدرسے کے ہی ایک بہادرحضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ہمیشہ کے لئے انہیں اپاہج بنا دیا۔
اسی طرح جب پاکستان میں یوم عاشورہ کو شیعوں نے شان صحابہ ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) میں گستاخی کی، تو مدرسے کے بہادروں نے یکجہتی اور ایک قوت کے ساتھ میدان دفاع صحابہ میں کود پڑے اور لاکھوں کی قیادت کرتے ہوئے شان صحابہ کے نعروں سے پورے پاکستان میں گونج پیدا کر دی ۔ جب شاہ بانو کیس میں عدالت عظمی (سپریم کورٹ) نے مسلمانوں کے پرسنل مسائل کے قوانین کے خلاف فیصلہ سنایا تو اس فیصلے کو بدلنے پر مجبور کرنے والے علماء ،مدارس کے ہی بہادر تھے ۔ بابری مسجد کیس میں تن من دھن کی بازی لگا کر کیس کی پیروی کرنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علماء ہند کے اراکین مدرسے کے ہی بہادر تھے۔ اسلام کا اہم مسئلہ تین طلاق کے خلاف بننے والے کالے قانون کی مخالفت کرنے والے اور لاکھوں افراد کی قیادت کرنے والے مدارس کے ہی بہادر تھے ۔
اور ایسی بات نہیں کہ اہل مدارس نے صرف مذہبی رہنما پیدا کیے ہوں؛ بلکہ تاریخی حقائق کے پیش نظر یہ وضاحت ضروری ہے کہ مدارس نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، مجاہد آزادی مولانا عبیداللہ سندھی ( رحمتہ اللہ علیہم) جیسے جری اور بہادر شخصیات کو بھی جنم دیا ہے، جنہوں نے مذہبی رہنمائی کے ساتھ سیاسی قیادت بھی کی ہے اور مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کو انگریزوں کے پنجے سے آزاد کرانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔
اتنی ساری مثالوں کے باوجود کوئی یہ کہے کہ مدارس میں بزدل قوم تیار کی جاتی ہے تو کہنے والا ہی بزدل ہے ، جو اپنی بزدلی کا داغ چھپانے کے لئے اہل مدارس پر کیچڑ اچھال رہا ہے ۔
مدارس کے طلبہ احتجاج میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل مدارس، طلبۂ مدارس کو باہر کی سرگرمیوں میں اور سیاسی جلسوں میں شریک ہونے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ جبکہ اس کے برخلاف یونیورسٹیوں کے طلبہ کو دیکھیں ، تو وہ احتجاجات میں ، حکومت کے خلاف پالیسیوں میں اور ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں اور یونیورسٹیوں کی طرف سے ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اکابرین نے ہندوستان جیسے ملک میں دو طرح کی تعلیم گاہیں قائم کی ہیں
( نمبر1) خالص دینی ادارے جیسے دارالعلوم دیوبند ، مظاہرعلوم سہارنپور ، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور ان جیسے دیگر دینی ادارے۔ ( نمبر2 ) دنیاوی تعلیمی ادارے مثلا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی وغیرہ ۔ دونوں طرح کے ادارے ہمارے اکابرین کے ہی قائم کردہ ہیں، جو اسلامی بچوں کے لیے ہیں اور دونوں کے الگ الگ مقاصد ہیں ۔ چنانچہ پہلے قسم کے ادارے کے قیام کے کیا مقاصد ہیں؟ اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے اوپر ملاحظہ فرمائیں۔ جبکہ دوسری قسم کے اداروں کے مقاصد میں سے ہیں کہ:
مسلم قوم کے بچے ان داروں سے ڈاکٹرز ، انجینئرز، سیاستدان اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہو کر نکلیں اور قوم کے مسیحا بنیں۔ ایک طرف اہل مدارس اپنا کام کریں تو دوسری طرف یونیورسٹیاں اپنا فریضہ انجام دیں۔
مدارس اور کالج میں ایک فرق یہ بھی ہے:
اسی طرح دونوں قسم کے اداروں میں ایک فرق یہ ہے کہ یونیورسٹی کے طلباء اخلاقی طور پر آزاد ہوتے ہیں اور سیاست کے لئے ایسے پروگراموں میں شریک ہونا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے نیز ان طلباء پر کسی طرح کی آفت آنے پر یونیورسٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا؛ جبکہ مدارس کے طلبہ ، اساتذہ کی خاص نگرانی میں ہوتے ہیں اور ان کا فوکس صرف مذہبی تعلیمات پر ہوتا ہے، تو اگر وہ اپنی نظر اس سے ہٹا لیں گے تو مقصد میں ناکام ہو جائیں گے، اسی لئے موبائل فون وغیرہ پر بھی مدارس میں پابندی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر انہیں سیاسی حلقوں میں شریک ہونے کی اجازت دی جائے اور کسی طریقے سے خدا نہ خواستہ ان بچوں پر کوئی مصیبت آجائے تو اس کا سارا الزام اہل مدارس پر لاگو کر دیے جاتے ہیں اور گھر والے مدارس کے خلاف مقدمات کر دیتے ہیں ،اس لیے کہ مدرسے کی چہار دیواری میں بچوں کو امانت کے طور پر بھیجا جاتا ہے، اسی لیے وہ اساتذہ کی خاص نگرانی میں ہوتے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے کہ جب طلباء اساتذہ کی نگرانی میں ہے اور اس امید کے ساتھ گھر والوں نے مدرسے میں داخلہ دلوایا ہے تو ان پر کسی بھی طرح کی آفت آنے کی صورت میں مدرسے کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
کیا استاد کی خدمت کرنا غلامی کرنا ہے؟
اساتذہ کا حکم ماننا ، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا غلامی نہیں؛ بلکہ عین حکمت ہے۔ رہبر کی رہبری کے بغیر منزل تک رسائی ممکن نہیں ہے ۔
کیا مسلمانوں کی قیادت یونیورسیٹی کے طلباء کریں گے؟
ان آر سی اور این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ کا احتجاج ہو ، یا شاہین باغ کا دھرنا ، ان سب کا تعلق مسلمانوں کے وجود سے ضرور تھا ؟ لیکن خاص مذہب اسلام سے نہیں تھا ، اسی طرح اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ تمام اقلیتوں سے تھا، اگر اہل مدارس اس کی قیادت کرتے تو ہندوستان کے موجودہ مذہبی زہرآلود فضا میں شاید دیگر اقلیتوں اور برادران وطن کا ساتھ نہیں ملتا، اسی لئے اس کی قیادت یونیورسٹی کے طلباء کو کرنی پڑی۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہی قیادت کے لائق اور عنداللہ مقبول ہیں اور اہل مدارس بزدل نالائق اور نااہل ہیں، جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں قیادت کی توفیق نہیں دی ۔نعوذباللہ من ذالک۔ اس لیے اگرچہ بظاہر اہل مدارس نے ان احتجاجی جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا؛ لیکن اس کے باوجود اہل مدارس خاموش نہیں بیٹھے رہے ؛ بلکہ انہوں نے یونیورسٹی کے طلبہ کا حوصلہ بڑھایا اور ہر مقام پر ان کے ساتھ ہونے کی یقین دہانی بھی کی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین
0 Comments