صحیح اور سہی میں فرق؍ کہاں کیا استعمال کرنا ہے؟

 صحیح  اور سہی میں فرق ؍ کہاں کیا استعمال کرنا ہے؟

صحیح اور سہی میں فرق؍ کہاں کیا استعمال کرنا ہے؟
صحیح  اور سہی میں فرق؍ کہاں کیا استعمال کرنا ہے؟


    عام طو پر جن الفاظ کے لکھنے میں اشتباہ ہوتا ہے ان میں سے صحیح  اور سہی بھی ہیں، کہ بسا اوقات اچھے خاصے ذی علم اور کہنہ مشق قلمکار حضرات بھی ان کے اصل مواقع استعمال کا ادراک نہیں کر پاتے اور ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کر بیٹھتے ہیں؛ اس لیے اس پوسٹ میں ہم دونوں کے مابین فرق اور ان کے استعمال کے محل کی وضاحت کریں گے۔

    صحیح یہ اسم صفت ہے ، اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور سالم کے مترادف کے طور پر بھی مستعمل ہے۔ اس کا معنیٰ ہے درست، تندرست، پورا ، سارا ،سموچا، کسی یا فعل کی تصدیق کرنا ؛البتہ درست کے معنی میں صحیح کا استعمال شائع و ذائع ہے؛ لیکن جب تندرست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو عام طور پرصحیح  سلامت یا صحیح سالم لکھتے اور بولتے ہیں، اسی طرح پورا اور مکمل کے معنیٰ میں بھی عام طور پر صرف سالم لکھتے یا بولتے ہیں۔ جیسے:

دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی

سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا

نکاح میں مہر کی شرعی حیثیت

    لغت کی کتابوں میں" صحیح" کا ایک معنیٰ دستخط بھی مذکور ہے، مگر میرے مطالعہ میں اس معنیٰ میں یہ لفظ اب تک نہیں آیا ہے۔

    فی الجملہ اس لفظ کے ‌‌‌‌‌محل استعمال میں  کوئی اشتباہ نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس کا استعمال ہر اس مقام پر ہوتا ہے ، جہاں کسی قول، فعل ، امر یا کسی شئی کی تاکید مقصود ہو۔

مثلاً: آپ کا موقف صحیح ہے، آپ کی بات صحیح تھی، آپ نے صحیح قدم اٹھایا وغیرہ۔

"سہی" کی اصل بھی " صحیح" ہی ہے، البتہ اس کا استعمال "صحیح" جتنا عام نہیں ہے اور نہ محل استعمال میں عمومیت ہے۔ "فرہنگ آصفیہ" میں اس لفظ کا ایک تلفظ " سئی " بھی بتایا گیا ہے اور اس کے یعنی سہی کے کل گیارہ مواقع استعمال بتائیے گئے ہیں۔ 

ہم ذیل میں بالاختصار ذکر کرتے ہیں؛ تاکہ سمجھنے میں بھی سہولت ہو اور " سہی " کے استعمال کے صحیح مواقع کی شناخت بھی ہوسکے:

(١) ٹھیک، بجا، درست، کے معنیٰ میں جیسے: جو تم کہو سو ہی سہی!

(٢) برائے ایجاب، قبول ، منظور، تسلیم ، مانا اور فرض کیا جیسے غالب کے اس شعر میں:

ہم بھی دشمن تو نہیں، اپنے 

غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی!

مسلم نوجوانوں کے نام اہم پیغام

(٣) برائے شرط جیسے: آؤ تو سہی! کھاؤ تو سہی! جا تو سہی! وغیرہ

(٤) تکمیلِ فعل کے لیے جیسے:میاں کھاؤ تو سہی پھر تکلف کرلینا! یعنی پہلے کھانا تو کھالو۔ 

یا جیسے: اس کو یہاں لا تو سہی! سوچ میں بیٹھے ہو کیوں؟

(٥) غنیمت ہے، مغتنم ہے، بہتر ہے کے معنوں میں جیسے: 

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی،نغمۂ شادی نہ سہی!

(غالب)

پیار سے چھیڑ چلی جائے أسد 

گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی! 

(غالب)

(٦) تسلی خاطر کے واسطے جیسے:

اپنی ہستی سے پوچھو کچھ ہو

آگہی گر نہیں ، غفلت ہی سہی!

(غالب)

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تیری عادت ہی سہی!

(غالب)

(٧) تاکید کے لیے جیسے:

کچھ تو دے ائے فلک نا ہنجار

آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی!

(غالب)

(٨) تسلسل کے معنیٰ میں جیسے:

قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی! 

(٩) تاکید کلام یعنی مانو، جانو، خیال کرو کے معنیٰ میں جیسے:

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری وحشت تیری شہرت ہی سہی!

(غالب)

(١٠) منظور کرو، قبول کرو کے معنیٰ میں جیسے:

میرے پونے میں ہے کیا رسوائی

اے وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی!

یعنی جلوت نہ سہی ، مجھے خلوت میں ہی بلانا منظور کرو۔

(١١) ہرچہ بادا باد، کچھ بھی ہو ، کچھ پروا نہیں کے معنیٰ میں جیسے:

چلو یونہی سہی! ہم فقیر ہی سہی ! وغیرہ

مستفاد از: فرہنگ آصفیہ، جل سوم ص ١٤٠-١٤١۔ فیروز اللغات وغیرہ۔

منقول


  محترم قارئین!  

مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔

   شکریہ  


 وضاحت  برائے رابطہ : 
ہر طرح کے علمی،فکری و اصلاحی مضامین پڑھنے کے لیے، نیز ہر طرح کے اسلامی و سیاسی خبروں سے واقفیت کے لیے 
درج ذیل لنکس پر کلک کریں، یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں۔ شکریہ
محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری
7079256979| 6397254972
Haq baat Kaho youtube
Mufti Imtiyaz Palamvi youtube
Haq Baat Kaho fb page
Haq Baat Kaho Telegram
Mohammad Imtiyaz Palamvi  Twitter



Post a Comment

1 Comments

  1. محمد اشرفFebruary 21, 2022 at 12:25 PM

    بہت تفصیلی اورمعیاری تشریح کی گئی ہے

    ReplyDelete